Picture
ہادی عالم اپنی شان انفرادیت کا عجیب شاہکار ہے۔ یہ ایسی معجزانہ کتا ب ہے جو چار سو سے ذیا دہ صفحات پر مشتمل ہے لیکن مصنف نے ایک بھی ایسا لفظ استعمال نہیں کیا جس میں کو ئی نقطہ ہو۔اس کے باوجود کسی جملے میں ربط عبارت میں یا بیان کی روانی میں یا مفہوم کی ادائیگی میں یا واقعات کی تفصیل میں ، کسی مقام پر بھی کوئی خلش یا ابہام نہیں ہے۔ اپنے انداز کی ندرت کے اعتبار سے اردو کے خزینہ ادب کے لیے یہ کتاب سرمایہ فخرومباہات ہے۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ ایک ایسا سدا بہار موضوع ہے جس پر بلامبالغہ ہزار ہا مصنفین نے مختلف زبانوں میں خامہ فرسائی کی ہے۔ اس موضوع کے عشاق نے نہ جانے کس کس پہلو سے کس کس انداز میں سیرت طیبہ کی خدمت کرکے کتابوں، مقالوں اور مضامین کا ایسا گرانقدر ذخیرہ تیار کر دیا ہے جس کی نظیر سیرت و سوانح کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ جہاں معنوی اعتبار سے مختلف مصنفین نے سیرت طیبہ کے مختلف پہلوؤں کو اپنا موضوع بنایا، وہاں سیرت کے بیان وا ظہار کے لیے بھی طرح طرح کے اسلوب اختیار کیے گئے، کسی نے پوری سیرت کو شعر و نظم کے پیرائے میں بیان کیا، کسی نے قافیہ بند نثر استعمال کی ۔ کسی نے اسے دوسری ادبی صنعتوں سے سجا کر بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں تک کہ عربی کے متعدد علماء اور شعراء نے تو سیرت طیبہ کو ایسے قصیدوں میں نظم کیا ہے جن کا ہر شعر ایک نئی ادبی صنعت پر مشتمل ہے۔ یہاں تک کہ علم بدیع کی تمام صنعتیں ان قصیدوں میں جمع ہیں۔

انہی ادبی صنعتوں میں ایک صنعت " غیر منقوط تحریر " ہے۔ اس قسم کی تحریروں میں صرف وہ لفظ استعمال کیے جاتے ہیں جن پر نقطہ نہیں ہے اور نقطے والے حروف سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ یہ بڑی مشکل اور سنگلاخ صنعت ہے، اس میں بہت کم ادباء پوری طرح کامیاب ہوسکے ہیں۔ پھر اردو میں غیر منقوط تحریر لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ نفی کا کوئی صیغہ کبھی استعمال ہوہی نہیں سکتا کیونکہ اس میں لازما "نہ" "نہیں" "مت" آئے گا اور ان میں سے ہر لفظ پر نقطہ ہے اور پھر مثبت جملوں میں بھی مضارع مطلق (مثلا گرتا ہے)، مستقبل (مثلا گریگا) اور اس طرح ماضی بعید اور ماضی استمراری کی بھی کوئی صورت نہیں کیونکہ ان میں لازما لفظ "تھا" لانا پڑتا ہے اس طرح ماضی قریب کی صورتوں میں بھی "گرگیاہے"، "گرچکاہے" ، "کرلیا ہے" کا بھی استعمال ممکن نہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ اردو میں نقطوں سے بے نیاز ہو کر لکھنے کی کوشش اپنے آپ کو کس قدر تنگ دائرے میں مقید کرنے کے مترادف ہے۔ اس محدود دائرے میں رہ کرسیرت طیبہ جیسے موضوع پر تقریبا چار سو صفحات کی کتاب لکھنا ایک ایسا کارنامہ ہے جس کی کماحقہ تعریف کے لیے الفاظ ملنے مشکل ہیں اور سچ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی کے خصوصی کرم کے سوا کوئی اور توجیہ اس کی ممکن نہیں ہے۔

اس طور پر لکھی جانے والی کتاب کے بارے میں سوچ کر بندےکے ذہن میں یہ خیال آتا ہےکہ یہ تو انتہائی مشکل الفاظ اور خشک جملوں پر مشتمل کتاب ہوگی۔ جبکہ حقیقت میں بات اس کے بالکل الٹ ہے۔ جملوں میں جو مٹھاس ہے میں اس کی مثال کے لیے اس کتاب کا ایک پہرہ پیش کرتا ہوں۔ 
سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کا تذکرہ ملاحظہ کریں۔

" اللہ اللہ : وہ رسول امم مولود ہوا کہ اس کے لیے صد ہاسال لوگ دعا گو رہے۔ اہل عالم کی مرادوں کی سحر ہوئی۔ دلوں کی کلی کھلی، گمراہوں کو ہادی ملا، گلے کو راعی ملا، ٹوٹے دلوں کو سہارا ہوا، اہل درد کو درماں ملا، گمراہ حاکموں کے محل گرے۔ سال ہاسال کی دہکی ہوئی وہ آگ مٹ کےرہی کہ لاکھوں لوگ اس کو الۃ کرکےاس کے آگے سرٹکائے رہے۔"

ڈاکٹر سید عبداللہ اس کتاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ کتاب ایسا کارنامہ ہے کہ جس کی مثال اردو زبان میں موجود نہیں۔ مصنف نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکمل زندگی غیر منقوط حروف کی ترکیب و ترتیب سے اردو میں لکھ کر اپنی ذہانت و فطانت کا کمال کر دکھایا ہے۔ اردو میں نقطہ دار حروف بہت ذیادہ ہیں۔ اس لیے رازی کی مشکل کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔ انہوں نے جانفشانی کا ایسا نادر نمونہ پیش کیا ہے جسے اردو زبان کے ذخیرے میں ایک بیش بہا اضافہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

11/28/2011 12:40:01 am

ماشاءاللہ۔۔۔یہ کتاب واقعی ایک انوکھی اور منفرد تصنیف ہے۔اللہ تعالی مصنف کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور زنجبیل ویب سائٹ والوں کو بھی اللہ اجر عطاء فرمائے،جنہوں نے اس کی تشہیر و اشاعت میں دلچسپی لی۔

Reply



Leave a Reply.